[mp3 format] تمام بیانات ۱۹۹۷ تا ۲۰۰۹
Download تمام غزالی [۲۰۰۲ ۔ ۲۰۱۴]
ملفوظات ڈاکٹر حضرت فدا محمد مدظلہُ
تربیت تو میرے بھائی اپنے نفس سے کُشتی ہے
فرمایا کہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مدینہ منورہ سے خطوط لکھے اور ایک تحریر شائع فرمائی اور سارے مدارس کو بھیجی اور سارے مدارس سے یہ درخواست کی کہ اگر آپ کے مدارس میں سلاسل تصوف کا رواج نہیں ہوگااور بیعت کا اور تربیت کا رواج نہیں ہوگا تو آپ کے علماء پکے نہیں ہوں گے۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خط ملا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں مفتی تقی عثمانی صاحب اور رفیع عثمانی صاحب سے کہا کہ برخوردار تم تو جا کر ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو جاؤکیونکہ مفتی تو تم ہو اور شیخ الحدیث بھی ہو لیکن اس علم کے بعدجو نفس کے اندر ذاتِ ذوالجلال کا تعلق قرار پکڑتا ہے اور نفس کی جو خباثتیں اور گندگیاں ٹوٹتی ہیں جس کو فنا کہتے ہیں اور اس کے اندر نیک خصائل اورنیک صفات جب آکرجڑ پکڑتی ہیں جس کو کہ بقا کہتے ہیں،یہ تو اُس آدمی کو حاصل ہے۔ واقعی ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ تو شیخ الحدیث گزرے نہ مفتی گزرے لیکن نسبتِ باطنیہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ڈاکٹر عبدالحئی صاحبرحمۃ اللہ علیہ کا قدم اگر آگے نہیں تھا تو کسی صورت پیچھے بھی نہیں تھا۔ بندہ نے وفات کے بعد کئی بزرگوں کو خواب میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ پشاور یونیورسٹی ہے اور اس میں ایک ایسا جلوس آرہا ہے جس طرح کوئی بہت بڑا شہنشاہ کسی مملکت کا آرہا ہو۔ گاڑیاں آگے پیچھے اور جلوس میں جس طرح موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں موٹریں ہوتی ہیں۔ قسم ہا قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، ان کے محافظ ہوتے ہیں، گارڈ ہوتے ہیں، ایک شور و غوغا ہے۔ میں نے کہا یا اللہ! یہ تو کوئی بہت ہی بڑا آدمی آرہا ہے، پیچھے دیکھا تو ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سفید کپڑوں میں آرہے ہیں اور ہماری مدینہ مسجد جس میں ہمارے سلسلے کے سارے کام ہوتے ہیں اس کے پیچھے سارا جلوس ٹھہر گیا اور کاروائی شروع ہوگئی۔ لہٰذا مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایک تو اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ڈاکٹر صاحبؒ اللہ کے بہت مقبول بندے دنیا سے اُٹھ گئے اور دوسرا یہ کہ ہمارے سلسلے میں ان کا فیضان آئے گا۔ سوچا کیسے آئے گا؟ ان کی کتاب اسوۂ سولِ اکرمﷺ پڑھی تو بہت پسند آئی تو اسے ہم نے سلسلے کے نصاب میں شامل کیا۔ ہمارے تین درجے کے نصاب میں درجہ دوم میں یہ کتاب ہے۔ پھر ’’بصائر حکیم الامت‘‘ جو پڑھی تو سبحان اللہ، یہ کتاب تو تصوف کی ایسی مہم بحث ہے جو پرانے بزرگوں کی گویا یادگار ہے۔ تو دونوں صاحبزادگان کو مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تربیت کے لئے وہاں بھیجا۔ تربیت تومیرے بھائی! اپنے نفس سے کشتی… کشتی کیا بلکہ دِھینگا مشتی ہے اور رگڑا رگڑی ہے اور پیہم کوشش ہے۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد پھر تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہٗ نے ہی ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کی سوانح لکھی ہے جو کہ قریباً ۹۰۰ صفحے پر مشتمل ہے۔
تُوخاک میں مل تُو آگ میں جل، جب اینٹ بنے تب کام چلے
فرمایا کہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مدینہ منورہ سے خطوط لکھے اور ایک تحریر شائع فرمائی اور سارے مدارس کو بھیجی اور سارے مدارس سے یہ درخواست کی کہ اگر آپ کے مدارس میں سلاسل تصوف کا رواج نہیں ہوگااور بیعت کا اور تربیت کا رواج نہیں ہوگا تو آپ کے علماء پکے نہیں ہوں گے۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خط ملا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں مفتی تقی عثمانی صاحب اور رفیع عثمانی صاحب سے کہا کہ برخوردار تم تو جا کر ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو جاؤکیونکہ مفتی تو تم ہو اور شیخ الحدیث بھی ہو لیکن اس علم کے بعدجو نفس کے اندر ذاتِ ذوالجلال کا تعلق قرار پکڑتا ہے اور نفس کی جو خباثتیں اور گندگیاں ٹوٹتی ہیں جس کو فنا کہتے ہیں اور اس کے اندر نیک خصائل اورنیک صفات جب آکرجڑ پکڑتی ہیں جس کو کہ بقا کہتے ہیں،یہ تو اُس آدمی کو حاصل ہے۔ واقعی ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ تو شیخ الحدیث گزرے نہ مفتی گزرے لیکن نسبتِ باطنیہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ڈاکٹر عبدالحئی صاحبرحمۃ اللہ علیہ کا قدم اگر آگے نہیں تھا تو کسی صورت پیچھے بھی نہیں تھا۔ بندہ نے وفات کے بعد کئی بزرگوں کو خواب میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ پشاور یونیورسٹی ہے اور اس میں ایک ایسا جلوس آرہا ہے جس طرح کوئی بہت بڑا شہنشاہ کسی مملکت کا آرہا ہو۔ گاڑیاں آگے پیچھے اور جلوس میں جس طرح موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں موٹریں ہوتی ہیں۔ قسم ہا قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، ان کے محافظ ہوتے ہیں، گارڈ ہوتے ہیں، ایک شور و غوغا ہے۔ میں نے کہا یا اللہ! یہ تو کوئی بہت ہی بڑا آدمی آرہا ہے، پیچھے دیکھا تو ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سفید کپڑوں میں آرہے ہیں اور ہماری مدینہ مسجد جس میں ہمارے سلسلے کے سارے کام ہوتے ہیں اس کے پیچھے سارا جلوس ٹھہر گیا اور کاروائی شروع ہوگئی۔ لہٰذا مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایک تو اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ڈاکٹر صاحبؒ اللہ کے بہت مقبول بندے دنیا سے اُٹھ گئے اور دوسرا یہ کہ ہمارے سلسلے میں ان کا فیضان آئے گا۔ سوچا کیسے آئے گا؟ ان کی کتاب اسوۂ سولِ اکرمﷺ پڑھی تو بہت پسند آئی تو اسے ہم نے سلسلے کے نصاب میں شامل کیا۔ ہمارے تین درجے کے نصاب میں درجہ دوم میں یہ کتاب ہے۔ پھر ’’بصائر حکیم الامت‘‘ جو پڑھی تو سبحان اللہ، یہ کتاب تو تصوف کی ایسی مہم بحث ہے جو پرانے بزرگوں کی گویا یادگار ہے۔ تو دونوں صاحبزادگان کو مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تربیت کے لئے وہاں بھیجا۔ تربیت تومیرے بھائی! اپنے نفس سے کشتی… کشتی کیا بلکہ دِھینگا مشتی ہے اور رگڑا رگڑی ہے اور پیہم کوشش ہے۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد پھر تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہٗ نے ہی ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کی سوانح لکھی ہے جو کہ قریباً ۹۰۰ صفحے پر مشتمل ہے۔
تُوخاک میں مل تُو آگ میں جل، جب اینٹ بنے تب کام چلے
بعض کم فہم لوگ دوسرے دینی کاموں کی مخالفت کرنے کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہیں
خوش اخلاقی مفت کی نیکی ہے اور ولایت کا دروازہ کھولنے والی ہے
دعایا بددعا فقط الفاظ نہیں جو ہم کہتے ہیں بلکہ یہ قلب کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جو ہمارے دِل میں کسی کی خدمت یا اذیت سے پیدا ہوتی ہے